حیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ و صدر کل ہند مجلس اتحاد المسلمین اسد الدین
اویسی نے بھوپال میں پیش آئے انکاونٹر کے واقعہ کی سپریم کورٹ کے ذریعہ
جانچ کروانے پر زور دیا ہے۔ انہوں نے حیدرآباد میں پارٹی ہیڈ کوارٹرس
دارالسلام میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک چونکا دینے والا اور
حیرت ناک واقعہ ہے کہ بھوپال کی ایک ہائی سیکوریٹی جیل سے جہاں تمام ملزمین
دہشت گردی کے الزامات کا سامنا کر رہے تھے اور زیرسماعت قیدی کے طور پر
محروس تھے ،دلیری سے فرار ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ سیمی کے تمام 8مبینہ
کارکنوں کی جیل سے دس کیلومیٹر کی دوری پر ہلاکت اور اس واقعہ میں جیل کے
گارڈ کی ہلاکت بھی حیرت ناک بات ہے۔ چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ یہ تمام
زیرسماعت قیدی مکمل کپڑے اور جوتے پہنے ہوئے تھے ۔ ان کے ہاتھوں میں گھڑیاں
تھیں، ان کے پتلونوں میں بیلٹس تھے۔ یہ تمام چیزیں زیردریافت قیدیوں کو
نہیں دی جاتیں۔
صدر مجلس نے واضح کیا کہ مدھیہ پردیش بالخصوص ملوا کا ایک علاقہ دہشت گردوں
کی کاروائیوں کا مرکز رہا ہے جو ملک بھر میں انجام دی گئیں ۔ چاہے وہ مکہ
مسجد بم دھماکہ ہو، اجمیر یا پھر موڈاسا کیوں نہ ہو۔ان واقعات میں ملوث
تمام افراد کا تعلق اس مخصوص علاقہ سے ہے۔ان افراد نے نائب صدر جمہوریہ
حامد انصاری کے قتل کی بھی کوشش کی تھی۔مکہ مسجد بم دھماکہ کے معاملہ کا
اصل ملزم رام جی کلسانگرے اور ڈانگے کا ہنوز پتہ نہیں چل سکا۔ انہوں نے کہا
کہ مدھیہ پردیش کے وزیرداخلہ اور پولیس کا اس انکاونٹر سے متعلق بیان تضاد
کا شکار ہے۔مدھیہ پردیش کے وزیرداخلہ کا کہنا ہے کہ ان زیرسماعت قیدیوں کے
پاس چمچے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ اے ٹی ایس کے پاس تمام عصری آلات ہیں، ان
کو آسانی سے گرفتار کرکے مجرم قرار دیا جاسکتا تھا تاہم یہ بات قابل غور ہے
کہ گارڈ کا قتل کرکے جیل توڑ کر فرارہونے
والوں کے پاس صرف چمچے تھے۔کسی
بھی عام شخص کے لیے بھی یہ بات قابل یقین نہیں ہے ۔ مسٹراسد اویسی نے اپنی
رائے ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ان کی رائے میں اس سارے معاملہ کی مناسب اور
آزادانہ جانچ کی جانی چاہئے تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ کس طرح گارڈ کا قتل کرکے
یہ ملزمین ہائی سیکوریٹی جیل سے فرار ہوئے اور اس کے بعد انکاونٹر ہوا۔
انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ سپریم کورٹ کے ذریعہ جانچ کروانے سے تمام
کمزوریوں اور تمام حقائق کو سامنے نہ لانے کے اقدامات کو سامنے لایاجاسکتا
ہے۔
انہوں نے کہاکہ دہشت گردی سے متعلق تمام واقعات کو ایک وقت مقررہ کے دوران
نمٹنے کا یہ موزوں وقت ہے۔سپریم کورٹ کے ذریعہ جانچ کروانے سے ہر چیز بے
نقاب ہوگی۔زیرسماعت ملزمین کی عدالتی تحویل میں ہلاکت یقیناًاس بات کو
ظاہرکرتی ہے کہ کچھ غلط ضرور ہوا ہے۔چاہے وہ آلیر انکاونٹر ہویا پھر کوئی
اورانکاونٹر۔ حکام کو چاہئے کہ وہ ان کو خاطی قراردیں اور تمام شواہد سامنے
لائیں او رانہیں مجرم قرار دیا جائے اور انہیں مخصوص دفعات کے تحت جیل میں
ڈالاجائے لیکن انکاونٹر مناسب نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر عدالتی تحویل میں وہ ہلاک ہوتے ہیں تو یہ بات مناسب
نہیں ہے کیونکہ تمام سے انصاف کرنا چاہئے ۔انکاونٹر میں ہلاکت انصاف کے کاز
میں مدگار ثابت نہیں ہوسکتی ۔ اگر انکاونٹر حقیقی ہے تو ٹھیک ہے لیکن اگر
لوگوں کی عدالتی تحویل میں ہلاکت ہوتی ہے تو اس سے کئی سوالات اٹھتے
ہیں۔سپریم کورٹ کے ذریعہ آزادانہ جانچ کا یہ موزوں وقت ہے جس سے پتہ چلے گا
کہ سنگین الزامات کا سامنا کرنے والے کس طرح جیل سے فرار ہونے میں کامیاب
ہوئے اور انکاونٹر میں ہلاک ہوئے۔ مسٹراسد اویسی نے کہاکہ مدھیہ پردیش کے
وزیراعلی دعوی کر رہے ہیں کہ ان افراد کے پاس چمچے تھے ۔ان کی یہ تھیوری
کسی بھی موزوں دماغ والے کے لیے قابل قبول نہیں ہے ۔